EN हिंदी
حد افق پر سارا کچھ ویران ابھرتا آتا ہے | شیح شیری
had-e-ufuq par sara kuchh viran ubharta aata hai

غزل

حد افق پر سارا کچھ ویران ابھرتا آتا ہے

عبد الاحد ساز

;

حد افق پر سارا کچھ ویران ابھرتا آتا ہے
منظر کے کھو جانے کا امکان ابھرتا آتا ہے

پس منظر میں 'فیڈ' ہوئے جاتے ہیں انسانی کردار
فوکس میں رفتہ رفتہ شیطان ابھرتا آتا ہے

پیچھے پیچھے ڈوب رہی ہیں عمر رواں کی منفعتیں
آگے آگے اک بھاری نقصان ابھرتا آتا ہے

جیسے میں دبتا جاتا ہوں ان آنکھوں کے بوجھ تلے
دل پر دو اشکوں کا اک احسان ابھرتا آتا ہے

ایک تشنج اک ہچکی پھر اک نیلی زہریلی قے
کیا کچھ لکھ دینے جیسا ہیجان ابھرتا آتا ہے

سازؔ مری جانب اٹھتی ہے رات گئے انگشت ''الست''
روح میں اک بھولا بسرا پیمان ابھرتا آتا ہے