EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

گرد اڑی عاشق کی تربت سے تو جھنجھلا کر کہا
واہ سر چڑھنے لگی پاؤں کی ٹھکرائی ہوئی

امیر مینائی




گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

امیر مینائی




ہاتھ رکھ کر میرے سینے پہ جگر تھام لیا
تم نے اس وقت تو گرتا ہوا گھر تھام لیا

امیر مینائی




ہے وصیت کہ کفن مجھ کو اسی کا دینا
ہاتھ آ جائے جو اترا ہوا پیراہن دوست

امیر مینائی




ہم جو پہنچے تو لب گور سے آئی یہ صدا
آئیے آئیے حضرت بہت آزاد رہے

امیر مینائی




ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں

امیر مینائی




ہلال و بدر دونوں میں امیرؔ ان کی تجلی ہے
یہ خاکہ ہے جوانی کا وہ نقشہ ہے لڑکپن کا

امیر مینائی