EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

برہمن دیر سے کعبے سے پھر آئے حاجی
تیرے در سے نہ سرکنا تھا نہ سرکے عاشق

امیر مینائی




بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے
دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر

امیر مینائی




چھیڑ دیکھو مری میت پہ جو آئے تو کہا
تم وفاداروں میں ہو یا میں وفاداروں میں ہوں

امیر مینائی




دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے

امیر مینائی




فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا

امیر مینائی




فرقت میں منہ لپیٹے میں اس طرح پڑا ہوں
جس طرح کوئی مردہ لپٹا ہوا کفن میں

امیر مینائی




گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

امیر مینائی