ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں
تمہاری تیر نگہ کے شکار ہم بھی ہیں
ازل سے داخل فرد شمار ہم بھی ہیں
تمہارے چاہنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
ہمیشہ ہم سے کدورت رہی حسینوں کو
نہ دل سے نکلے کبھی وہ غبار ہم بھی ہیں
مسافروں کی تواضع سے نام ہوتا ہے
کرم کرو کہ غریب الدیار ہم بھی ہیں
شراب پیتے ہیں تو جاگتے ہیں ساری رات
مدام عابد شب زندہ دار ہم بھی ہیں
ہزار بار حسینوں سے ہم نے نوک کی لی
گلوں کی آنکھ میں کھٹکے وہ خار ہم بھی ہیں
عجیب رتبہ عنایت کیا ہے قنبر کو
غلام یا شہ دلدل سوار ہم بھی ہیں
جنوں کے ہاتھ سے ہے ان دنوں گریباں تنگ
قبا پکارتی ہے تار تار ہم بھی ہیں
بڑے ہی چالیے ہیں چال چلتے ہیں ہر دم
وہ چوکتے نہیں پر ہوشیار ہم بھی ہیں
رقیب کو بھی ہے بار ان کی بزم میں آغاؔ
شریک صحبت بوس و کنار ہم بھی ہیں
غزل
ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں
آغا اکبرآبادی