EN हिंदी
ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا | شیح شیری
tere jalal se KHurshid ko zawal hua

غزل

ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا

آغا اکبرآبادی

;

ترے جلال سے خورشید کو زوال ہوا
ترے جمال سے مہتاب کو کمال ہوا

خرام ناز میں ان کو یہ کب خیال ہوا
کہ دل کسی کا پسا کوئی پائمال ہوا

شباب سے تری رنگت کا طرفہ حال ہوا
سپید جوڑا جو پہنا بدن میں لال ہوا

جو وصل یار کی تدبیر کی وصال ہوا
خیال عیش کا آیا تو اک ملال ہوا

ہلال بدر ہوا بدر سے ہلال ہوا
یہاں کمال کسی کا نہ بے زوال ہوا

ہزاروں سیکڑوں پیدا ہوئے ہوئے ناپید
نہ ایک دم بھی زمانے کو اعتدال ہوا

رقیب قتل ہوا اس کی تیغ ابرو سے
حرام زادہ تھا اچھا ہوا حلال ہوا

بتوں کا ظلم کسی نے سنا نہ محشر میں
خدا سے بھی مرا جھگڑا نہ انفصال ہوا

کئے ہیں خوں سے کسی کے یہ دست و پا رنگین
شکار تازہ کوئی آج کیا حلال ہوا

جلایا مجھ کو تو تجھ کو بھی لگ گیا دھبہ
جگر پہ داغ مرے رخ پہ تیرے خال ہوا

جو میں جنوں میں گیا سوئے دشت اے آغاؔ
تو مجھ کو دیکھ کے دیوانہ ہر غزال ہوا