شدت ذات نے یہ حال بنایا اپنا
جسم مجنوں میں ہوا تنگ شلوکا اپنا
یار بنتا نہیں وہ نور کا پتلا اپنا
خاک میں مل گیا تسخیر کا دعویٰ اپنا
میکشوں میں نہ کوئی مجھ سا نمازی ہوگا
در مے خانہ پہ بچھتا ہے مصلیٰ اپنا
وصل کی رات بہت طول ہوا آخر کار
مختصر یہ ہے کہ فیصل ہوا قصہ اپنا
گل کھلا کر ابھی بلبل کو جلاؤں کیا کیا
وہ عنایت کریں گر پور کا چھلا اپنا
رب ارنی کی صدا ہو بھی تو بت بول اٹھیں
آپ دکھلائیں اگر دیر میں جلوا اپنا
آئینہ خانہ میں چل بیٹھیے دو چار گھڑی
دیکھنا ہووے جو منظور تماشا اپنا
جیتے جی خویش و اقارب تھے پس مرگ افسوس
خاک میں داب دیا کوئی نہ سمجھا اپنا
کسی صیاد کی پڑ جائے نہ چڑیا پہ نظر
آپ سرکائیں نہ محرم سے دوپٹا اپنا
آپ سو بار اکھڑ جائیں نہیں کچھ پروا
جم گیا ایک پری زاد سے نقشہ اپنا
دام محرم میں پھنسایا ہے خدا خیر کرے
آشیانہ نہ بنا بیٹھے یہ چڑیا اپنا
گرم خوابی نے تری ذبح کیا اے قاتل
ایک دم بھی نہ کلیجا ہوا ٹھنڈا اپنا
رند مشرب ہیں کسی سے ہمیں کچھ کام نہیں
دیر اپنا ہے نہ کعبہ نہ کلیسا اپنا
ہے وہی سر وہی سودا وہی جوش وحشت
وصل تبدیل ہوئی رنگ نہ بدلا اپنا
ان کی زلفوں کو یہ دعویٰ ہے کہ ہم کالے ہیں
ہم نے بچتے نہیں دیکھا کبھی مارا اپنا
غیر سے رکھیے نہ امداد کی امید آغاؔ
کام آتا ہے مری جان بھروسا اپنا
غزل
شدت ذات نے یہ حال بنایا اپنا
آغا اکبرآبادی