EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے
ملنا ترا آساں ہے طلب گار بہت ہیں

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے
ملنا ترا آساں ہے طلب گار بہت ہیں

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




میرا مقصد کہ وہ خوش ہوں مری خاموشی سے
ان کو اندیشہ کہ یہ بھی کوئی فریاد نہ ہو

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




مرے تو دل میں وہی شوق ہے جو پہلے تھا
کچھ آپ ہی کی طبیعت بدل گئی ہوگی

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




مرے تو دل میں وہی شوق ہے جو پہلے تھا
کچھ آپ ہی کی طبیعت بدل گئی ہوگی

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




نہ وہ پوچھتے ہیں نہ کہتا ہوں میں
رہی جاتی ہے دل کی دل میں ہوس

وحشتؔ رضا علی کلکتوی




نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے
جسے تم نے کیا خاموش اس سے کیا صدا نکلے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی