جو تجھ سے شور تبسم ذرا کمی ہوگی
ہمارے زخم جگر کی بڑی ہنسی ہوگی
رہا نہ ہوگا مرا شوق قتل بے تحسیں
زبان خنجر قاتل نے داد دی ہوگی
تری نگاہ تجسس بھی پا نہیں سکتی
اس آرزو کو جو دل میں کہیں چھپی ہوگی
مرے تو دل میں وہی شوق ہے جو پہلے تھا
کچھ آپ ہی کی طبیعت بدل گئی ہوگی
بجھی دکھائی تو دیتی ہے آگ الفت کی
مگر وہ دل کے کسی گوشے میں دبی ہوگی
کوئی غزل میں غزل ہے یہ حضرت وحشتؔ
خیال تھا کہ غزل آپ نے کہی ہوگی
غزل
جو تجھ سے شور تبسم ذرا کمی ہوگی
وحشتؔ رضا علی کلکتوی