EN हिंदी
کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو | شیح شیری
kahte ho ab mere mazlum pe bedad na ho

غزل

کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

کہتے ہو اب مرے مظلوم پہ بیداد نہ ہو
ستم ایجاد ہو پھر کیوں ستم ایجاد نہ ہو

نہیں پیمان وفا تم نے نہیں باندھا تھا
وہ فسانہ ہی غلط ہے جو تمہیں یاد نہ ہو

تم نے دل کو مرے کچھ ایسا کیا ہے ناشاد
شاد کرنا بھی جو اب چاہو تو یہ شاد نہ ہو

جو گرفتار تمہارا ہے وہی ہے آزاد
جس کو آزاد کرو تم کبھی آزاد نہ ہو

میرا مقصد کہ وہ خوش ہوں مری خاموشی سے
ان کو اندیشہ کہ یہ بھی کوئی فریاد نہ ہو

میں نہ بھولوں غم عشق کا احساں وحشتؔ
ان کو پیمان محبت جو نہیں یاد نہ ہو