ان پربتوں کے بیچ تھی مستور اک گپھا
پتھر کی نرمیوں میں تھی محفوظ کائنات
وہاب دانش
ان پربتوں کے بیچ تھی مستور اک گپھا
پتھر کی نرمیوں میں تھی محفوظ کائنات
وہاب دانش
جنگلوں میں گھومتے پھرتے ہیں شہروں کے فقیہ
کیا درختوں سے بھی چھن جائے گا عالم وجد کا
وہاب دانش
جب سفر کی دھوپ میں مرجھا کے ہم دو پل رکے
ایک تنہا پیڑ تھا میری طرح جلتا ہوا
وہاب دانش
کھل گیا راز چھپی چاہ کا سب محفل پر
نام لے کر جو مرا اس سے پکارا نہ گیا
وہاب دانش
وہ رنگ کا ہجوم سا وہ خوشبوؤں کی بھیڑ سی
وہ لفظ لفظ سے جواں وہ حرف حرف سے حسیں
وہاب دانش
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے
وحید اختر