خاک کے پتلوں میں پتھر کے بدن کو واسطا
اس صنم خانے میں ساری عمر مجھ سے ہی پڑا
جب سفر کی دھوپ میں مرجھا کے ہم دو پل رکے
ایک تنہا پیڑ تھا میری طرح جلتا ہوا
جنگلوں میں گھومتے پھرتے ہیں شہروں کے فقیہ
کیا درختوں سے بھی چھن جائے گا عالم وجد کا
نرم رو پانی میں پہروں ٹکٹکی باندھے ہوئے
ایک چہرہ دیکھتا تھا بولتا سا آئینہ
یہ سیاہی خون میں اک روز مل جائے گی جب
چودھویں کا چاند کمرے میں اتر آئے تو کیا
غزل
خاک کے پتلوں میں پتھر کے بدن کو واسطا
وہاب دانش