تھکاوٹوں سے بیٹھ کے سفر اتاریئے کہیں
بلا سے گرم ریت ہو اگر نہ مل سکے زمیں
کہو تو اس لباس میں تمہارے ساتھ میں چلوں
غبار اوڑھ لوں گا میں بدن پہ آج کچھ نہیں
بطوں کا غول اب یہاں اتر کے پا سکے گا کیا
کھڑے ہو تم جہاں پہ اب وہ نرم جھیل تھی نہیں
کھلے ہوئے مکان میں ادا بھی تیری خوب ہے
زباں سے قفل کی طلب کلید زیر آستیں
تمام عمر پا بہ گل نہ جنگلوں سے مل سکا
درخت زرد حال سا جو اب بھی ہے کھڑا یہیں
وہ رنگ کا ہجوم سا وہ خوشبوؤں کی بھیڑ سی
وہ لفظ لفظ سے جواں وہ حرف حرف سے حسیں
ابھی بھی اس مکان میں پلنگ تخت میز ہے
گئے جو سیر کے لیے تو پھر نہ آ سکے مکیں
غزل
تھکاوٹوں سے بیٹھ کے سفر اتاریئے کہیں
وہاب دانش