EN हिंदी
ہر روشنی کی بوند پہ لب رکھ چکی ہے رات | شیح شیری
har raushni ki bund pe lab rakh chuki hai raat

غزل

ہر روشنی کی بوند پہ لب رکھ چکی ہے رات

وہاب دانش

;

ہر روشنی کی بوند پہ لب رکھ چکی ہے رات
بڑھنے لگے زمیں کی طرف تیرگی کے ہات

جنگل کھڑے ہیں بھید کے اور اجنبی شجر
شاخیں نہیں صلیب کہ دشوار ہے نجات

ہو کے کبھی اداس یہاں بیٹھتا تو تھا
چل کے کسی درخت سے پوچھیں تو اس کی بات

ہاتھوں میں گر نہیں تو نگاہوں کو دیجئے
اس صاحب نصاب بدن سے کوئی زکوٰۃ

ان پربتوں کے بیچ تھی مستور اک گپھا
پتھر کی نرمیوں میں تھی محفوظ کائنات