ہر روشنی کی بوند پہ لب رکھ چکی ہے رات
بڑھنے لگے زمیں کی طرف تیرگی کے ہات
جنگل کھڑے ہیں بھید کے اور اجنبی شجر
شاخیں نہیں صلیب کہ دشوار ہے نجات
ہو کے کبھی اداس یہاں بیٹھتا تو تھا
چل کے کسی درخت سے پوچھیں تو اس کی بات
ہاتھوں میں گر نہیں تو نگاہوں کو دیجئے
اس صاحب نصاب بدن سے کوئی زکوٰۃ
ان پربتوں کے بیچ تھی مستور اک گپھا
پتھر کی نرمیوں میں تھی محفوظ کائنات
غزل
ہر روشنی کی بوند پہ لب رکھ چکی ہے رات
وہاب دانش