بڑی حویلی کے تقسیم جب اجالے ہوئے
جو بے چراغ تھے وہ بھی چراغ والے ہوئے
نہ آئنوں کو خبر تھی نہ دست وحشت کو
کہاں گریں گے یہ پتھر جو ہیں اچھالے ہوئے
جو تخت و تاج پہ تنقید کرتے پھرتے ہیں
یہ سارے لوگ ہیں دربار سے نکالے ہوئے
پھر آج بھوک ہمارا شکار کر لے گی
کہ رات ہو گئی دریا میں جال ڈالے ہوئے
انہیں خبر ہی نہیں سر نہیں ہیں شانوں پر
جو اپنے ہاتھوں میں دستار ہیں سنبھالے ہوئے
وہ لوگ بھی تو کناروں پہ آ کے ڈوب گئے
جو کہہ رہے تھے سمندر ہیں سب کھنگالے ہوئے
کسی کے آنے پہ اب تالیوں کا شور کہاں
وہ ہار سوکھ چکے ہیں گلے میں ڈالے ہوئے
غزل
بڑی حویلی کے تقسیم جب اجالے ہوئے
طارق قمر