نظر نظر سے ملا کر کلام کر آیا
غلام شاہ کی نیندیں حرام کر آیا
کئی چراغ ہوا کے اثر میں آئے تھے
میں ایک جگنو کو ان کا امام کر آیا
یہ کس کی پیاس کے چھینٹے پڑے ہیں پانی پر
یہ کون جبر کا قصہ تمام کر آیا
اترتی شام کے سائے بہت ملول سے تھے
سو ایک شب میں وہاں بھی قیام کر آیا
یہ اور بات مرے پاؤں کٹ گئے لیکن
میں شاہراہ کو اک راہ عام کر آیا
کروں کلام کسی اور سے میں کیا طارقؔ
کہ اپنے لفظ تو سب اس کے نام کر آیا
غزل
نظر نظر سے ملا کر کلام کر آیا
طارق قمر