اس نے اک بار بھی پوچھا نہیں کیسا ہوں میں
خود کو بھی جس کے لئے ہار کے بیٹھا ہوں میں
پھول ہونے کی سزا خوب ملی ہے مجھ کو
شاخ سے ٹوٹ کے گلدان میں رکھا ہوں میں
چلتا رہتا ہوں تو لگتا ہے کوئی ساتھ میں ہے
تھک کے بیٹھوں گا تو یاد آئے گا تنہا ہوں میں
گم ہوا خود میں تو اک نقطۂ موہوم ہوا
منکشف ہوتے ہی اطراف پہ چھایا ہوں میں
اس سلیقے سے مجھے قتل کیا ہے اس نے
اب بھی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ زندہ ہوں میں
پھر اچانک یہ ہوا جیت گئی یہ دنیا
میں سمجھتا تھا کہ بس جیتنے والا ہوں میں
وہ بھی رسماً یہی پوچھے گا کہ کیسے ہو تم
میں بھی ہنستے ہوئے کہہ دوں گا کہ اچھا ہوں میں
غزل
اس نے اک بار بھی پوچھا نہیں کیسا ہوں میں
طارق قمر