میں نے یوں دیکھا اسے جیسے کبھی دیکھا نہ تھا
اور جب دیکھا تو آنکھوں پر یقیں آتا نہ تھا
بام و در سے سخت بارش میں بھی اٹھے گا دھواں
یوں بھی ہوتا ہے محبت میں کبھی سوچا نہ تھا
آندھیوں کو روزن زنداں سے ہم دیکھا کئے
دور تک پھیلا ہوا صحرا تھا نقش پا نہ تھا
لوگ لائے ہیں کہاں سے شب کو مرمر کے چراغ
ان چٹانوں میں تو دن کو راستہ پیدا نہ تھا
شہر کی ہنگامہ آرائی میں کھو کر رہ گیا
میں کہ اپنے گھر میں بھی مجھ کو سکوں ملتا نہ تھا
برف اپنے آپ گھل جاتی ہے سورج ہو نہ ہو
شام سے پہلے یہ جانا تھا مگر سمجھا نہ تھا
ان دنوں بھی شہر میں سیلاب آتے تھے بہت
وادیوں میں جب کہیں بادل ابھی برسا نہ تھا
رات کی تنہائیوں میں جس سے چونک اٹھے تھے ہم
اپنی ہی آواز تھی شعلہ کوئی چمکا نہ تھا
وہ بھی سچ کہتے ہیں اخترؔ لوگ بیگانے ہوئے
ہم بھی سچے ہیں کہ دنیا کا چلن ایسا نہ تھا
غزل
میں نے یوں دیکھا اسے جیسے کبھی دیکھا نہ تھا
اختر ہوشیارپوری