میں اس کا نام گھلے پانیوں پہ لکھتا کیا
وہ ایک موج رواں ہے کہیں پہ رکتا کیا
تمام حرف مرے لب پہ آ کے جم سے گئے
نہ جانے میں نے کہا کیا اور اس نے سمجھا کیا
سبھوں کو اپنی غرض تھی سبھوں کو اپنی بقا
مرے لیے مرے نزدیک کوئی آتا کیا
ابھرتا چاند مرا ہم سفر تھا دریا میں
میں ڈوبتے ہوئے سورج کو مڑ کے تکتا کیا
پرندے گھر کی منڈیروں پہ آ کے بیٹھ گئے
میں اجنبی تھا اشارہ کوئی سمجھتا کیا
فراق و وصل تو تصویریں ان کے نام کی ہیں
میں ان میں رنگ کسی کے لہو سے بھرتا کیا
میں اپنے گھر میں نہیں تھا مگر کہیں بھی نہ تھا
ادھر سے مجھ کو گزرتے کسی نے دیکھا کیا
تمام شہر رواں ہے مرے تعاقب میں
میں آپ کیا مرے گھر کی طرف کو رستا کیا
یہ روشنی کبھی پہلے نہ تھی یہاں اخترؔ
ستارہ رات کی پلکوں پہ کوئی چمکا کیا
غزل
میں اس کا نام گھلے پانیوں پہ لکھتا کیا
اختر ہوشیارپوری