طوفاں سے قریہ قریہ ایک ہوئے
پھر ریت سے چہرہ چہرہ ایک ہوئے
چاند ابھرتے ہی اجلی کرنوں سے
اوپر کا کمرہ کمرہ ایک ہوئے
الماری میں تصویریں رکھتا ہوں
اب بچپن اور بڑھاپا ایک ہوئے
اس کی گلی کے موڑ سے گزرے کیا تھے
سب راہی رستہ رستہ ایک ہوئے
دیوار گری تو اندر سامنے تھا
دروازہ اور دریچہ ایک ہوئے
جب وہ پودوں کو پانی دیتا تھا
پس منظر اور نظارہ ایک ہوئے
کل آنکھ مچولی کے کھیل میں اخترؔ
میں اور پیڑوں کا سایہ ایک ہوئے
غزل
طوفاں سے قریہ قریہ ایک ہوئے
اختر ہوشیارپوری