طوفان ابر و باد سے ہر سو نمی بھی ہے
پیڑوں کے ٹوٹنے کا سماں دیدنی بھی ہے
ارزاں ہے اپنے شہر میں پانی کی طرح خوں
ورنہ وفا کا خون بڑا قیمتی بھی ہے
یارو شگفت گل کی صدا پر چلے چلو
دشت جنوں کے موڑ پہ کچھ روشنی بھی ہے
ٹوٹے ہوئے مکاں ہیں مگر چاند سے مکیں
اس شہر آرزو میں اک ایسی گلی بھی ہے
بیگانہ وار گزری چلی جا رہی ہے زیست
مڑ مڑ کے دوستوں کی طرح دیکھتی بھی ہے
اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک
اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے
غزل
طوفان ابر و باد سے ہر سو نمی بھی ہے
اختر ہوشیارپوری