EN हिंदी
نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا | شیح شیری
nafraton se chehra chehra gard tha

غزل

نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا

اختر فیروز

;

نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا
مجرم انسانیت ہر فرد تھا

کچھ ہواؤں میں بھی تھا خوف و ہراس
کچھ فضاؤں کا بھی چہرہ زرد تھا

بے حسی میں دفن تھی انسانیت
آدمیت کا بھی لہجہ سرد تھا

اپنے کاندھوں پر اٹھائے اپنا بوجھ
کوئی آوارہ کوئی شب گرد تھا

پھول سے چہرے تھے مرجھائے ہوئے
شہر گل بھی آج شہر درد تھا

جس نے دنیا بھر کے غم اپنائے تھے
اس کو دنیا نے کہا بے درد تھا

سچ تو اخترؔ یہ ہے اس ماحول میں
میرا دشمن ہی مرا ہمدرد تھا