EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ نکلے ہیں سراپا بن سنور کر
قیامت آئے گی یہ آج طے ہے

شو رتن لال برق پونچھوی




وہ نکلے ہیں سراپا بن سنور کر
قیامت آئے گی یہ آج طے ہے

شو رتن لال برق پونچھوی




اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

شعیب بن عزیز




دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں

شعیب بن عزیز




دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں

شعیب بن عزیز




غنچہ چٹکا تھا کہیں خاطر بلبل کے لئے
میں نے یہ جانا کہ کچھ مجھ سے کہا ہو جیسے

شعیب بن عزیز




اتنا نور کہاں سے لاؤں تاریکی کے اس جنگل میں
دو جگنو ہی پاس تھے اپنے جن کو ستارہ کر رکھا ہے

شعیب نظام