وہ نکلے ہیں سراپا بن سنور کر
قیامت آئے گی یہ آج طے ہے
شو رتن لال برق پونچھوی
وہ نکلے ہیں سراپا بن سنور کر
قیامت آئے گی یہ آج طے ہے
شو رتن لال برق پونچھوی
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں
شعیب بن عزیز
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں
شعیب بن عزیز
غنچہ چٹکا تھا کہیں خاطر بلبل کے لئے
میں نے یہ جانا کہ کچھ مجھ سے کہا ہو جیسے
شعیب بن عزیز
اتنا نور کہاں سے لاؤں تاریکی کے اس جنگل میں
دو جگنو ہی پاس تھے اپنے جن کو ستارہ کر رکھا ہے
شعیب نظام