EN हिंदी
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں | شیح شیری
ab udas phirte ho sardiyon ki shamon mein

غزل

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

شعیب بن عزیز

;

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اب تو اس کی آنکھوں کے مے کدے میسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈوگے ساغروں میں جاموں میں

دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں

زندگی بکھرتی ہے شاعری نکھرتی ہے
دلبروں کی گلیوں میں دل لگی کے کاموں میں

جس طرح شعیبؔ اس کا نام چن لیا تم نے
اس نے بھی ہے چن رکھا ایک نام ناموں میں