EN हिंदी
دنیا سے دنیا میں رہ کر کیسے کنارہ کر رکھا ہے | شیح شیری
duniya se duniya mein rah kar kaise kinara kar rakkha hai

غزل

دنیا سے دنیا میں رہ کر کیسے کنارہ کر رکھا ہے

شعیب نظام

;

دنیا سے دنیا میں رہ کر کیسے کنارہ کر رکھا ہے
دیکھ تو آ کر کس صورت سے ہم نے گزارہ کر رکھا ہے

پہلے تو ہم دنیا سمجھے لیکن اب احساس ہوا ہے
جوش جنوں میں ہم نے خود کو پارہ پارہ کر رکھا ہے

اتنا نور کہاں سے لاؤں تاریکی کے اس جنگل میں
دو جگنو ہی پاس تھے اپنے جن کو ستارہ کر رکھا ہے

دیکھ سکو تو دیکھ لو آ کر میرا کمال آخر بھی تم
شب کے رنگ سے ملتی لو کو کیسے شرارہ کر رکھا ہے

اتنے شوخ کہاں ہوتے تھے مجھ کو تو یوں لگتا ہے
رنگوں کو چپکے سے اس نے کوئی اشارہ کر رکھا ہے