دنیا سے دنیا میں رہ کر کیسے کنارہ کر رکھا ہے
دیکھ تو آ کر کس صورت سے ہم نے گزارہ کر رکھا ہے
پہلے تو ہم دنیا سمجھے لیکن اب احساس ہوا ہے
جوش جنوں میں ہم نے خود کو پارہ پارہ کر رکھا ہے
اتنا نور کہاں سے لاؤں تاریکی کے اس جنگل میں
دو جگنو ہی پاس تھے اپنے جن کو ستارہ کر رکھا ہے
دیکھ سکو تو دیکھ لو آ کر میرا کمال آخر بھی تم
شب کے رنگ سے ملتی لو کو کیسے شرارہ کر رکھا ہے
اتنے شوخ کہاں ہوتے تھے مجھ کو تو یوں لگتا ہے
رنگوں کو چپکے سے اس نے کوئی اشارہ کر رکھا ہے
غزل
دنیا سے دنیا میں رہ کر کیسے کنارہ کر رکھا ہے
شعیب نظام