ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
نازک کلامیاں مری توڑیں عدو کا دل
میں وہ بلا ہوں شیشے سے پتھر کو توڑ دوں
شیخ ابراہیم ذوقؔ
پھر مجھے لے چلا ادھر دیکھو
دل خانہ خراب کی باتیں
شیخ ابراہیم ذوقؔ
پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
پیر مغاں کے پاس وہ دارو ہے جس سے ذوقؔ
نامرد مرد مرد جواں مرد ہو گیا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری
خدا سے جب نہیں چوری تو پھر بندے سے کیا چوری
شیخ ابراہیم ذوقؔ