EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر مرے پیروں کے برابر کر دے

شاہد میر




بجھتی ہوئی سی ایک شبیہ ذہن میں لیے
مٹتی ہوئی ستاروں کی صف دیکھتے رہے

شاہد میر




بجھتی ہوئی سی ایک شبیہ ذہن میں لیے
مٹتی ہوئی ستاروں کی صف دیکھتے رہے

شاہد میر




درد ہے دولت کی طرح غم ٹھہرا جاگیر
اپنی اس جاگیر میں خوش ہیں شاہدؔ میر

شاہد میر




گنوائے بیٹھے ہیں آنکھوں کی روشنی شاہدؔ
جہاں پناہ کا انصاف دیکھنے والے

شاہد میر




گنوائے بیٹھے ہیں آنکھوں کی روشنی شاہدؔ
جہاں پناہ کا انصاف دیکھنے والے

شاہد میر




ہر اک شے بے میل تھی کیسے بنتی بات
آنکھوں سے سپنے بڑے نیند سے لمبی رات

شاہد میر