اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے
یا چھلکتی ہوئی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے
تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے
آ کسی دن مرے احساس کو پیکر کر دے
قید ہونے سے رہیں نیند کی چنچل پریاں
چاہے جتنا بھی غلافوں کو معطر کر دے
دل لبھاتے ہوئے خوابوں سے کہیں بہتر ہے
ایک آنسو کہ جو آنکھوں کو منور کر دے
اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر مرے پیروں کے برابر کر دے
غزل
اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے
شاہد میر