نہ جانے کیا ہوئے اطراف دیکھنے والے
تمام شہر کو شفاف دیکھنے والے
گرفت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا
ملول ہیں مرے اوصاف دیکھنے والے
سوائے راکھ کوئی چیز بھی نہ ہاتھ آئی
کہ ہم تھے ورثۂ اسلاف دیکھنے والے
ہمیشہ بند ہی رکھتے ہیں ظاہری آنکھیں
یہ تیرگی میں بہت صاف دیکھنے والے
محبتوں کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے
ہر ایک سانس کا اسراف دیکھنے والے
اب اس کے بعد ہی منظر ہے سنگ باری کا
سنبھل کے بارش الطاف دیکھنے والے
گنوائے بیٹھے ہیں آنکھوں کی روشنی شاہدؔ
جہاں پناہ کا انصاف دیکھنے والے
غزل
نہ جانے کیا ہوئے اطراف دیکھنے والے
شاہد میر