EN हिंदी
تاریکیوں کا ہم تھے ہدف دیکھتے رہے | شیح شیری
tarikiyon ka hum the hadaf dekhte rahe

غزل

تاریکیوں کا ہم تھے ہدف دیکھتے رہے

شاہد میر

;

تاریکیوں کا ہم تھے ہدف دیکھتے رہے
سیارے سب ہماری طرف دیکھتے رہے

ٹکڑے ہمارے دل کے پڑے تھے یہاں وہاں
تھا پتھروں سے جن کو شغف دیکھتے رہے

برسی تھی ایک غم کی گھٹا اس دیار میں
چہروں کا دھل رہا تھا کلف دیکھتے رہے

موتی ملے نہ خواب کی پرچھائیاں ملیں
آنکھوں کے کھول کھول صدف دیکھتے رہے

بجھتی ہوئی سی ایک شبیہ ذہن میں لیے
مٹتی ہوئی ستاروں کی صف دیکھتے رہے

سپنے تلاش کرتے رہے زندگی میں ہم
اک ریت کی ندی میں صدف دیکھتے رہے

گویا تھا ایک عالم کا دریا چڑھا ہوا
شاہدؔ صفات شاہ نجف دیکھتے رہے