EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے

ثاقب لکھنوی




جس شخص کے جیتے جی پوچھا نہ گیا ثاقبؔ
اس شخص کے مرنے پر اٹھے ہیں قلم کتنے

ثاقب لکھنوی




کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

ثاقب لکھنوی




کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

ثاقب لکھنوی




کس نظر سے آپ نے دیکھا دل مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے

ثاقب لکھنوی




مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے

ثاقب لکھنوی




سونے والوں کو کیا خبر اے ہجر
کیا ہوا ایک شب میں کیا نہ ہوا

ثاقب لکھنوی