EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

ثاقب لکھنوی




بلا سے ہو پامال سارا زمانہ
نہ آئے تمہیں پاؤں رکھنا سنبھل کر

ثاقب لکھنوی




بوئے گل پھولوں میں رہتی تھی مگر رہ نہ سکی
میں تو کانٹوں میں رہا اور پریشاں نہ ہوا

ثاقب لکھنوی




چل اے ہم دم ذرا ساز طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ آئیں گے محفل سے

ثاقب لکھنوی




چل اے ہم دم ذرا ساز طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ آئیں گے محفل سے

ثاقب لکھنوی




دیدۂ دوست تری چشم نمائی کی قسم
میں تو سمجھا تھا کہ در کھل گیا مے خانے کا

ثاقب لکھنوی




ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے

ثاقب لکھنوی