میں اپنے شہر سے مایوس ہو کے لوٹ آیا
پرانے سوگ بسے تھے نئے مکانوں میں
ساقی فاروقی
میں اپنے شہر سے مایوس ہو کے لوٹ آیا
پرانے سوگ بسے تھے نئے مکانوں میں
ساقی فاروقی
میں اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھتا ہوں
میں بے وفا ہوں مگر بے خبر نہ جان مجھے
ساقی فاروقی
میں کھل نہیں سکا کہ مجھے نم نہیں ملا
ساقی مرے مزاج کا موسم نہیں ملا
ساقی فاروقی
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
ساقی فاروقی
میں تو خدا کے ساتھ وفادار بھی رہا
یہ ذات کا طلسم مگر ٹوٹتا نہیں
ساقی فاروقی
میں ان سے بھی ملا کرتا ہوں جن سے دل نہیں ملتا
مگر خود سے بچھڑ جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے
ساقی فاروقی