EN हिंदी
وہ آگ ہوں کہ نہیں چین ایک آن مجھے | شیح شیری
wo aag hun ki nahin chain ek aan mujhe

غزل

وہ آگ ہوں کہ نہیں چین ایک آن مجھے

ساقی فاروقی

;

وہ آگ ہوں کہ نہیں چین ایک آن مجھے
جو دن گیا تو ملی رات کی کمان مجھے

وہ کون ہے کہ جسے آسماں میں ڈھونڈتا ہوں
پلٹ کے دیکھتا کیوں ہے یہ آسمان مجھے

یہ کیسی بات ہوئی ہے کہ دیکھ کر خوش ہے
وہ آنسوؤں کے سمندر کے درمیان مجھے

یہیں پہ چھوڑ گیا تھا اسے یہیں ہوگا
سکوت خواب ہے آواز کا نشان مجھے

وہ منتقم ہوں کہ شعلوں کا کھیل کھیلتا ہوں
مری کمینگی دیتی ہے داستان مجھے

میں اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھتا ہوں
میں بے وفا ہوں مگر بے خبر نہ جان مجھے