ہراس پھیل گیا ہے زمین دانوں میں
قیامتیں نظر آتی ہیں آسمانوں میں
نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ان آنکھوں پر
جو خواب دیکھتی تھیں خوف کے زمانوں میں
یہاں خیال کے سوتوں سے خون پھوٹے گا
سراب کے لیے جنگیں ہیں ساربانوں میں
یہ کون ہیں کہ خدا کی لگام تھامے ہوئے
پڑے ہوئے ہیں قناعت کے شامیانوں میں
میں اپنے شہر سے مایوس ہو کے لوٹ آیا
پرانے سوگ بسے تھے نئے مکانوں میں
غزل
ہراس پھیل گیا ہے زمین دانوں میں
ساقی فاروقی