پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے
سامنے بہتا ہے دریا سوچ لے
کشتیوں کو پھونک کر آگے نہ بڑھ
ڈوب جائے گا جزیرہ سوچ لے
دیکھ کر اس کو نہتا خوش نہ ہو
تجربہ پہلا ہے تیرا سوچ لے
اپنے شیشے کے پروں کا کر خیال
رخ نہیں اچھا ہوا کا سوچ لے
رشتۂ آب و سراب اک خواب ہے
تو بھی سایہ میں بھی سایہ سوچ لے
ان کہی کہہ ان سنی باتیں سنا
رہ گیا جو کچھ بھی سوچا سوچ لے

غزل
پھر نہ آئے گا یہ لمحہ سوچ لے
سلیم شہزاد