وسعت ہے وہی تنگئی افلاک وہی ہے
جو خاک پہ ظاہر ہے پس خاک وہی ہے
اک عمر ہوئی موسم زنداں نہیں بدلا
روزن ہے وہی دیدۂ نمناک وہی ہے
کیا چشم رفو گر سے شکایت ہو کہ اب تک
وحشت ہے وہی سینۂ صد چاک وہی ہے
ہر چند کہ حالات موافق نہیں پھر بھی
دل تیری طرف داری میں سفاک وہی ہے
اک ہاتھ کی جنبش میں در و بست ہے ورنہ
گردش وہی کوزہ ہے وہی چاک وہی ہے
جو کچھ ہے مرے پاس وہ میرا نہیں شاید
جو میں نے گنوا دی مری املاک وہی ہے
زوروں پہ سلیمؔ اب کے ہے نفرت کا بہاؤ
جو بچ کے نکل آئے گا تیراک وہی ہے
غزل
وسعت ہے وہی تنگئی افلاک وہی ہے
سلیم کوثر