ریت پر مجھ کو گماں پانی کا تھا
صبر میرا امتحاں پانی کا تھا
سب جنون و عزم کاغذ کشتیاں
سامنا جب بے کراں پانی کا تھا
سنگ صحرا میں تھی دریا کی نمود
سنگ صحرا میں زیاں پانی کا تھا
یوں ملی سیلاب میں جائے پناہ
سر پہ میرے سائباں پانی کا تھا
آگ بھی برسی درختوں پر وہیں
کال بستی میں جہاں پانی کا تھا
اک سنہری فاختہ تھی پر کشا
جب یہ بے سمت آسماں پانی کا تھا
غزل
ریت پر مجھ کو گماں پانی کا تھا
سلیم شہزاد