EN हिंदी
طلسم زار شب ماہ میں گزر جائے | شیح شیری
tilism-zar-e-shab-e-mah mein guzar jae

غزل

طلسم زار شب ماہ میں گزر جائے

اعتبار ساجد

;

طلسم زار شب ماہ میں گزر جائے
اب اتنی رات گئے کون اپنے گھر جائے

عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے
یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے

میں تیرے جسم میں کچھ اس طرح سما جاؤں
کہ تیرا لمس مری روح میں اتر جائے

مثال برگ خزاں ہے ہوا کی زد پہ یہ دل
نہ جانے شاخ سے بچھڑے تو پھر کدھر جائے

میں یوں اداس ہوں امشب کہ جیسے رنگ گلاب
خزاں کی چاپ سے بے ساختہ اتر جائے

ہوائے شام جدائی ہے اور غم لاحق
نہ جانے جسم کی دیوار کب بکھر جائے

اگر نہ شب کا سفر ہو ترے حصول کی شرط
فروغ مہر ترا اعتبار مر جائے