EN हिंदी
زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا | شیح شیری
zaKHmon ka do-shaala pahna dhup ko sar par tan liya

غزل

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا

اعتبار ساجد

;

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا
کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے کہاں کہاں نروان لیا

نقش دیے تری آشاؤں کو عکس دیے ترے سپنوں کو
لیکن دیکھ ہماری حالت وقت نے کیا تاوان لیا

اشکوں میں ہم گوندھ چکے تھے اس کے لمس کی خوشبو کو
موم کے پھول بنانے بیٹھے لیکن دھوپ نے آن لیا

برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گرد سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا

آنکھ پہ ہات دھرے پھرتے تھے لیکن شہر کے لوگوں نے
اس کی باتیں چھیڑ کے ہم کو لہجے سے پہچان لیا

سورج سورج کھیل رہے تھے ساجدؔ ہم کل اس کے ساتھ
اک اک قوس قزح سے گزرے اک اک بادل چھان لیا