بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں
آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں
کوئی کھڑکی نہیں کھلتی کسی باغیچے میں
سانس لینا بھی ہے دشوار کہیں اور چلیں
تو بھی مغموم ہے میں بھی ہوں بہت افسردہ
دونوں اس دکھ سے ہیں دو چار کہیں اور چلیں
ڈھونڈتے ہیں کوئی سر سبز کشادہ سی فضا
وقت کی دھند کے اس پار کہیں اور چلیں
یہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا
اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں
ایسے ہنگامہ محشر میں تو دم گھٹتا ہے
باتیں کچھ کرنی ہیں اس بار کہیں اور چلیں
غزل
بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں
اعتبار ساجد