نہ تیرگی کے لیے ہوں نہ روشنی کے لیے
ستارۂ سحری ہوں میں زندگی کے لیے
یہ کون وقت کی صورت مجھے بدلتا ہے
یہ کیا کسی کے لیے کچھ ہوں کچھ کسی کے لیے
سراب خواب کی تعبیر جوئے آب سہی
میں سوچتا ہوں مگر دشت تشنگی کے لیے
وہ مطمئن ہوں گماں کو یقیں سمجھتا ہوں
یقیں کہ خود نہیں کچھ کم جو گمرہی کے لیے
کہیں وہ میری طرح میرا آشنا ہی نہ ہو
ہزار خواب بنوں میں جس اجنبی کے لیے
وہ آسماں ہو کہ صحرا وجود ہو کہ عدم
فضا بنی ہے یہ کس شرح خامشی کے لیے
غزل
نہ تیرگی کے لیے ہوں نہ روشنی کے لیے
عین سلام