ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں
مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں
پہلے منزل پس منزل پس منزل اور پھر
راستے ڈوب گئے عالم تنہائی میں
گاہے گاہے کوئی جگنو سا چمک اٹھتا ہے
میرے ظلمت کدۂ انجمن آرائی میں
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں خود اپنی بصارت کی حدود
کھو گئی ہیں مری نظریں مری بینائی میں
ان سے محفل میں ملاقات بھی کم تھی نہ مگر
اف وہ آداب جو برتے گئے تنہائی میں
یوں لگا جیسے کہ بل کھا کے دھنک ٹوٹ گئی
اس نے وقفہ جو لیا ناز سے انگڑائی میں
کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رستے ہوئے زخم
کون اترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں
غزل
ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں
رئیس امروہوی