صبح نو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاک شب ہجراں ہوں گے
صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جان رئیسؔ
بخدا یہ نہ ترے درد کا درماں ہوں گے
میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہوگی
تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے
آزمائے گا بہرحال ہمیں جبر حیات
ہم ابھی اور اسیر غم دوراں ہوں گے
عاشقی اور مراحل سے ابھی گزرے گی
امتحاں اور محبت کے مری جاں ہوں گے
قلب پاکیزہ نہاد و دل صافی دے کر
آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے
صدقۂ تیرگیٔ شب سے گلہ سنج نہ ہو
کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے
آج ہے جبر و تشدد کی حکومت ہم پر
کل ہمیں بیخ کن قیصر و خاقاں ہوں گے
وہ کہ اوہام و خرافات کے ہیں صید زبوں
آخر اس دام غلامی سے گریزاں ہوں گے
صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی
نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے
غزل
صبح نو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے
رئیس امروہوی