EN हिंदी
رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے | شیح شیری
rang hawa se chhuT raha hai mausam-e-kaif-o-masti hai

غزل

رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے

راہی معصوم رضا

;

رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے
پھر بھی یہاں سے حد نظر تک پیاسوں کی اک بستی ہے

دل جیسا ان مول رتن تو جب بھی گیا بے رام گیا
جان کی قیمت کیا مانگیں یہ چیز تو خیر اب سستی ہے

دل کی کھیتی سوکھ رہی ہے کیسی یہ برسات ہوئی
خوابوں کے بادل آتے ہیں لیکن آگ برستی ہے

افسانوں کی قندیلیں ہیں ان دیکھیں محرابوں میں
لوگ جسے صحرا کہتے ہیں دیوانوں کی بستی ہے