رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے
پھر بھی یہاں سے حد نظر تک پیاسوں کی اک بستی ہے
دل جیسا ان مول رتن تو جب بھی گیا بے رام گیا
جان کی قیمت کیا مانگیں یہ چیز تو خیر اب سستی ہے
دل کی کھیتی سوکھ رہی ہے کیسی یہ برسات ہوئی
خوابوں کے بادل آتے ہیں لیکن آگ برستی ہے
افسانوں کی قندیلیں ہیں ان دیکھیں محرابوں میں
لوگ جسے صحرا کہتے ہیں دیوانوں کی بستی ہے
غزل
رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف و مستی ہے
راہی معصوم رضا