اپنی دنیا خود بہ فیض غم بنا سکتا ہوں میں
اک جہان شوق نا محکم بنا سکتا ہوں میں
میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار
گل بنا سکتا ہے تو شبنم بنا سکتا ہوں میں
دل کے باجے میں نہیں معلوم کتنے تار ہیں
حسن کو اک تار کا محرم بنا سکتا ہوں میں
پھر حقیقت کی اسی جنت کی جانب لوٹ کر
بندگی کو لغزش آدم بنا سکتا ہوں میں
حاصل اشک ندامت کچھ نہیں اس کے سوا
ہے جو دامن تر اسی کو نم بنا سکتا ہوں میں
عشق ہوں میرے لیے پاس حدود ہوش کیا
ہو کے دیوانہ بھی اک عالم بنا سکتا ہوں میں
جس قدر آنسو گرے اتنا ہی انساں ہو سکا
زندگی شاید بقدر غم بنا سکتا ہوں میں
خود شناسی کی شراب آتشیں بھر کر نشورؔ
کاسۂ مفلس کو جام جم بنا سکتا ہوں میں
غزل
اپنی دنیا خود بہ فیض غم بنا سکتا ہوں میں
نشور واحدی