EN हिंदी
کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں | شیح شیری
kabhi sunte hain aql-o-hosh ki aur kam bhi pite hain

غزل

کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں

نشور واحدی

;

کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں
کبھی ساقی کی نظریں دیکھ کر پیہم بھی پیتے ہیں

کہاں تم دوستوں کے سامنے بھی پی نہیں سکتے
کہاں ہم رو بہ روئے ناصح برہم بھی پیتے ہیں

خزاں کی فصل ہو روزے کے ایام مبارک ہوں
طبیعت لہر پر آئی تو بے موسم بھی پیتے ہیں

طواف کعبہ بے کیفیت مے ہو نہیں سکتا
ملا لیتے ہیں تھوڑی سی اگر زمزم بھی پیتے ہیں

کہاں کی توبہ کیسا اتقا عہد جوانی میں
اگر سمجھو تو آؤ تم بھی چکھو ہم بھی پیتے ہیں

نشورؔ آلودۂ عصیاں سہی پر کون باقی ہے
یہ باتیں راز کی ہیں قبلۂ عالم بھی پیتے ہیں