EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کبھی لباس کبھی بال دیکھنے والے
تجھے پتہ ہی نہیں ہم سنور چکے دل سے

نعمان شوق




کبوتروں میں یہ دہشت کہاں سے در آئی
کہ مسجدوں سے بھی کچھ دور جا کے بیٹھ گئے

نعمان شوق




کیسی جنت کے طلب گار ہیں تو جانتا ہے
تیری لکھی ہوئی دنیا کو مٹاتے ہوئے ہم

نعمان شوق




کھل رہے ہیں مجھ میں دنیا کے سبھی نایاب پھول
اتنی سرکش خاک کو کس ابر نے نم کر دیا

نعمان شوق




خدا معاف کرے سارے منصفوں کے گناہ
ہم ہی نے شرط لگائی تھی ہار جانے کی

نعمان شوق




کنارے پاؤں سے تلوار کر دی
ہمیں یہ جنگ ایسے جیتنی تھی

نعمان شوق




کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے
نہا کے روشنیوں میں لگے بہکتے ہوئے

نعمان شوق