کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے
نہا کے روشنیوں میں لگے بہکتے ہوئے
یہ رنگ رنگ کے پیکر یہ تیز موسیقی
ہر اک بدن پہ کئی زخم ہیں تھرکتے ہوئے
بہت سے لوگ تھے رقصاں مگر الاؤ کے گرد
کسی کو دیکھا نہیں اس طرح دمکتے ہوئے
یہ حق پرستوں کی بستی اجڑ نہ جائے کہیں
مجھے ملے ہیں کئی آئینے سسکتے ہوئے
یہ کون سامنے بیٹھا ہے خوب رو ایسا
ملال ہونے لگے آنکھ بھی جھپکتے ہوئے
اب ایسے خوف کے سائے میں خواب دیکھیں کیا
یہاں تو آنکھ بھی ڈرنے لگی جھپکتے ہوئے
غزل
کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے
نعمان شوق