سب اپنے اپنے خداؤں میں جا کے بیٹھ گئے
سو ہم بھی خوف کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے
مجھے اس آگ کی تفصیل میں نہیں جانا
جنہیں بنانی تھیں خبریں بنا کے بیٹھ گئے
کبوتروں میں یہ دہشت کہاں سے در آئی
کہ مسجدوں سے بھی کچھ دور جا کے بیٹھ گئے
ہمارا قہر ہماری ہی جان پر ٹوٹا
تمام خاک بدن کی اڑا کے بیٹھ گئے
کل آفتاب کو اس طرح ڈوبتے دیکھا
ہم اپنے جلتے دیوں کو بجھا کے بیٹھ گئے
یہاں بھی جھانکتی رہتی تھیں شک بھری نظریں
سو ہم بھی روح پہ قشقہ لگا کے بیٹھ گئے
غزل
سب اپنے اپنے خداؤں میں جا کے بیٹھ گئے
نعمان شوق