ایک آیت پڑھ کے اپنے آپ پر دم کر دیا
ہم نے ہر چہرے کی جانب دیکھنا کم کر دیا
احتراماً اس کے قدموں میں جھکا نادان میں
اس نے میرا قد ہمیشہ کے لیے کم کر دیا
مجھ سے اوروں کی جدائی بھی سہی جاتی نہیں
میں نے دو بھیگی ہوئی پلکوں کو باہم کر دیا
کھل رہے ہیں مجھ میں دنیا کے سبھی نایاب پھول
اتنی سرکش خاک کو کس ابر نے نم کر دیا
کر رہے تھے عشق میں سود و زیاں کا وہ حساب
ان کے تخمینے نے میرا درد بھی کم کر دیا
ساتھ جتنی دیر رہ لوں کون سا کھلتا ہے وہ
اس نے دانستہ مرے شعروں کو مبہم کر دیا
غزل
ایک آیت پڑھ کے اپنے آپ پر دم کر دیا
نعمان شوق